ابدیت کیلئے شدید خواہش (واعظ 3 باب 11 آیت)

  اُس نے ہر ایک چیز کو اس کے وقت میں خوب بنایا اور اس نے ابدیت کو بھی ان کے دل میں جاگزین کیا ہے اس لئے کہ انسان اس کام کو جو خدا شروع سے آخر تک کرتا ہے دیانت میں کرسکتا

واعظ 3 باب 11 آیت

مَیں سن گریگ چرچ میں خدائے  قادرِ مطلق سے ملنے کیلئے آیا ۔ یہ 1992ء تھا جب میں پہلی مرتبہ خدا سے ملا ۔ پھر میں چائنہ میں بطور مشنری کام کرنے کیلئے چلا گیا ۔ پھر جب میں کوریا واپسں آیا تو میں نے چرچ میں خدمت کرنا شروع کردی ۔ جب بھی مجھے اپنا تعارف پیش کرنے کیلئے کہا جاتا تو میں جواب دیتا کہ میں خدا سے ملا ہوا ہوں ۔

 ہاں جب میں ایک جگہ ملازمت بھی کرتا تھا تو کمپنی  کی منیجز نے کہا نئے ورکر کے طور پر یہ اپنا تعارف پیش کرو ۔ میں نے کہا ۔ میں خدا سے 1992 ء آگست میں ملا ۔ ہاں میں جانتا تھاکہ میں یہ کیوں کہہ رہا ہوں اور دوسرے مجھ سے اس کے متعلق  کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟ اس کے بعد مجھے پتہ چلا کہ کمپنی کی مالک بھی متھیوڈسٹ چرچ کی ممبر رہی تھی۔ یہ اس زمانے کی بات تھی جب وہ جوان ہوا کرتی تھی ۔ اس وقت کی بات تھی جب وہ تقریبا 25 سال کی تھی اور وہ اب تقربیا 50 سال کی تھی مگر سوائے ممبر  شپ کے وہ یہ بالکل نہیں جانتی تھی کہ خدا سے ملنے کا مطلب کیا ہے ۔ پھر میں نے اس کو بتایا کہ ماضی میں مَیں بھی خدا کو نہیں جانتا تھا اور خدا کے خلاف تھا۔ کیا تم نے فلاسفر “ڈوال ینگ  ہ کیم  “کے بارے میں سنا ہے ؟ میں نے اسے بتایا کہ جب میں پرائمری سکول میں تھا تو میں اس کی کتا بیں   پڑھا کرتا تھا ۔ اور جب میں یو رنیوسٹی میں آیا تو اس کی ساری کتابیں میرے پاس تھیں ۔ میں نے  ان سب کو خریدا اور اس وقت سے ان کو پڑھ رہا ہوں ۔ ان کے پڑ ھتے  پڑھتے ہی وقت کے ساتھ ساتھ میں نے مسحیت کو ایک معاشرتی بُرائی کے طور پر لے لیا ۔ میں نے یہاں تک سوچ لیا کہ اگر مسیحیت  ختم ہو جا ئے تو دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے ؟

  مگر اسی سوچ میں خدا نے مجھ پر ظاہر کر دیا کہ میں گنہگار ہوں ۔ میں اسکے سامنے  جُھک گیا اور کہنا ” خداوند اگر واقعی ہے تو مجھ سے مل مجھے تیری ضرورت ہے ۔ ہاں میں واقعی اسے ملا ۔ بائبل محض الفاظ کا مجموعہ نہیں ۔ میں یہ جان گیا ۔ میں نے ساری بائبل کو اپنے اوپر  کھولتے  ہوئے دیکھا ۔ بنیا دی طور پر مَیں ایک سخت آدمی تھا  جو کہ آسانی سے دوسروں کے الفاظ پر یقین نہیں لاتا تھا لیکن جب میں نے ایک گواہی کو سنُا کہ وہ شخص  زندہ خدا سے کیسا ملا ؟ اور پھر بائبل اور اس گواہی سے میں بھی اس ایمان پر پاک روح کے مجھے سمجھانے سے ایمان لے آیا ۔ میں واقعی خدا سے ملا اور اس نے اپنا آپ مجھ پر اپنے بیٹے یسوع میں ظاہر کردیا ۔

اگر کوئی مجھ سے میری بیوی کے بارے میں پوچھے تو یقین جانیے میں ساران دن اسے اس کے بارے   بتاسکتا   ہوں ۔ کہ میں اسے کہاں ملا ؟ وہ کونسا کھانا پسند کرتی ہے ۔ وہ کیسی لگتی ہے ؟ وہ کب غصے میں آتی ہے ؟ اسے کونسی چیز خوش کر تی ہے ؟ میں ان سارے سوالوں کا آسانی سے جواب دے سکتا  ہوں !

 اگر کو ئی امریکہ میں مستقبل  سکونت اختیار  کرنے کے بارے پوچھے اور ایک دوسرے لڑکے یا لڑکی سے اس کے بارے  سارے معلامات طے کرلے جو پہلے سے ہی امریکن شہریت رکھتا یا رکھتی ہو تو انٹریوو کے دوران وہ زیادہ سے زیادہ 20 منٹ تک امیگریشن آفسیر  کو مطمن  کرسکتا ہے یاکرسکتی ہے ۔ مگر اس سے زیادہ نہیں کیونکہ یہی سچائی ہے ۔ مزید اگرامیگر یشن آفسر کے سامنے کو نہ ملتا چلتا رّو یہ  یابات کردیں تو عین ممکن ہے کہ یہ راز کھل جائے ۔

 لیکن جب ہم خدا سے ملتے ہیں تو ہمیں  کسی چیز  کو یاد کرنے یا حفظ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ البتہ مزید  اسے جاننے  کیلئے بائبل مقدس کو پڑھنا اور مزید پاک روح کی رہنمائی میں جاننا اشد ضرورت بن جاتا  ہے ۔

 پس یسوع کے نام میں میری آپ کیلئے  درخواست ہے کہ آپ سب مسیح سے ملیں ۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتاتو وہ یہ سب  کچھ آپ کی زندگی میں ڈال دے گا اور آپ جان جا نیں گے بلکہ دوسروں کو بھی بتا نے والے بن جائیں گے ۔ کیاآپ اپنے بچے کو جانتے ہیں ۔ کیوں جی جانتے ہیں ۔ کہ نہیں جانتے ؟ اس کے متعلق آپ کو کبھی اور گواہی کی کوئی ضرورت نہ ہے ۔ بائبل مقدس اسی طرح خداکو جانے کے بعد ہم کسی چیز کے محتاج نہیں رہتے ہیں ۔

 بائبل مقدس ہمیں بتلاتی ہے کہ ا س نے ہمارے دلوں میں اہمیت کو جاگزین کیا ہے ۔ اشد ضرورت ہے کہ ہم لفظ ابدیت کو گہرے انداز میں جانیں تاکہ یہ حقیقت ہم پر نمایا ں ہو ۔ تا ہم پھر بھی یہ ناکامی ہے ۔ ابدیت کا مطلب ہے نہ اس کا شروع اور نہ ہی خاتمہ ! یہ ابد ہے ابدی ہے اسی لئے ابدیت ہے ۔ اس لئے بائبل فرماتی ہے کہ اس نے اسے ہماری دلوں کے اندر رکھا ہوا ہے ۔

 جونہی ہم صبح اُٹھتے ہی ہزاروں خیال ہمارے اندر آجاتے  ہیں ۔ مثال کے طور ہم اُ ٹھ تو جاتے ہیں مگر ہم تھوڑی دیر کیلئے لیٹنا چاہتے ہیں اور پھر اسی طرح کی کئی باتیں ہمارے دل میں بھی آجاتی ہیں ۔ مثلا ََ فرض کریں آج بہت  سردی ہے چرچ میں جیکٹ پہنوں یا نہ ۔ میرا دل اس کے بارے میں کئی خیالات کا حامل  ہو گا ۔ اسی طرح کئی اور چیزوں کے بارے خیالات ، حالات ِواقعات کے بارے اسی صورت ِ حال سے انسا ن دو چار رہتا ہے ۔ مثلا ََ عبادت کے بعد کیا میں لوگوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر دُعا کروں یانہ کرو ۔ سردی ہے اگر میں ایسا کروں تو پیٹھ  میں درد لاحق ہوسکتا ہے کیونکہ مجھے جُھک کر کئی مرتبہ ایسا کرنا پڑے گا ۔سردی ہے اور یہ خطر ناک ہوسکتا ہے ۔ ایسے کئی خیالات اور باتیں آتی چلی جا ئیں گئ ۔ کافی ہویا نہ ، سوپ پیوں یا نہ وغیرہ ۔

 دل ، دماغ اکثر ایسے کئی خیالات سے دوچار رہتے ہیں ۔ پھر دل ودماغ اور جسم بے جا ہیں انہیں کیسے جُدا کیا جاسکتا ہے ۔ یقینا  جب میرا پیٹ خالی ہوتا ہے تو اصل میں وہ روٹی کھانا چا رہا ہوتاہے ۔

 جب گرمی آتی ہے تو ہمیں سردی میں رہنا پسند ہوتاہے اور جب سردی ہو تی ہے تو ہم گرمی چار ہے ہوتے ہیں ۔ ہے نا یہ عجیب صورت  حال مگر ہم چا رہے ہوتے ہیں ۔ ایسا کیوں ہے ؟ ۔ یہ معاملہ اصل میں بدن ، روح ، اور دماغ کا ہوتا ہے ۔ ہم  اس ضمن میں کچھ نہیں کر سکتے  ۔

 میں آپ کو اس طرح کی ایک اور مثال دیتا ہوں جب میں ملٹر ی ٹرینگ میں تھا تو سردی کی سرد راتوں میں ہمیں مختلف رات دن کے اوقات میں مختلف جگہوں اور مقاموں پر فوجی فرائض اور دیکھ بھال کیلئے تعینات  کیا جاتا تھا ۔ شام صبح ، رات کو سردی کی مختلف نوعیت ہو تی تھی ہو ابہت زیادہ سرد ہوا کرتی تھی اور درجہ حرارت منفی 25  تک چلا جاتا تھا ۔ مگر ہمیں پھر ہیٹر کے آگےکھڑا رہنا پڑتا تھا ۔ ہم نے صرف فوجی وردی اور لمبا کوٹ سردی سے بچاؤ کیلئے پہنا ہوتا تھا ۔پس !

 البتہ پہاڑوں پر اچھے موسم میں فرائض کی ادا ئیگی دل پسند کام تھا مگر یہ چند دنوں کیلئے ہوتا تھا ۔ مگر جب وہاں پر بھی ٹھنڈی ہو ائیں چلتی تھی تو سار مزہ کر کر ا ہوجا تا تھا ۔ جب یہ ڈیوٹی 12 گھنٹے کی  ہوتی تو ہم 6 گھنٹے چاہتے کہ یہ ہو جائے وغیرہ وغیرہ ! رہا ہو ، دراصل وہ حقیقت پسند ہونے کی بجائے خیالات پرمبنی پسند اور ناپسند چاہ رہا ہوتا ہے ۔ یہی انسانی کیفیات کہلاتی ہیں ۔

 گرم پانی ہو توہم ٹھنڈے پانی سے نہا نا چاہتے ہیں ۔   ٹھنڈے ہو تو ہم گرمی چاہتے اور گرم پانی  سےنہاتے ہیں  ۔ بہت مشکل کے دن کو اسی طرح سے سجھاتے رہنا ۔ تاکہ گذارا ہوتا چلا جائے ۔

بعض اوقات کھانے کی اشیا کے ساتھ بھی ہم یہی چاہ رہے ہوتے ہیں ۔ اور جب ہمیں مل جائے تو ہمارے خیالات اور پسند بدل جاتے ہیں ۔

 دل کو بہلانا ذرا آسان ہے کیونکہ اس کا تعلق ہمارے جسم کے ساتھ ہوتا ہے ۔ مگر ہمارے اجسام اصل میں ابدیت کو پسند نہیں کرتے ہیں ۔ ہمارے اجسام صرف اور صرف اپنی ہی پسند کو جو انہیں راحت پہنچاتی ہے پسند کرتے ہیں ۔ لیکن یقین جانئے یہ راحت بھی عارضی   ثابت ہوتی ہے ۔ میں چاہ رہا ہوتا ہوں کہ میٹھی روٹی کھاؤ کافی ہو اور سو جاؤں مگر اگلی صبح ڈیوٹی پھر جاکر سارا مزہ ختم ہوجاتا ہے ۔

 اس قسم کی سو چیں 365 دن سال میں چلتی ہی چلی جاتیں ہیں ۔ یاد رکھیں یہی جسم کی خواہش ہیں ۔ اور یہی جسم کی خواہشوں کی حقیقت ہے ۔

 ہم ہر قیمت پر جسم جان اور بدن اور ا نکی خواہشات کے ساتھ جڑا رہنا پسند کرتے ہیں ۔

 مگر اس کے ساتھ ایک حقیقی طور                 زبردست سچائی پا ئی جاتی ہے ۔ اور یہ ابدیت کی چا ہت ہے ۔ یقینا ہمارا دل اس کو چاہتا ہے اور یہ اس کے اندر ہے کیونکہ بائبل فرمارہی ہے ۔ یاد رہے بائبل فرماتی ہے کہ کوئی عارضی دنیوی چیز ہمیں ہمیشہ کیلئے اطمینا ن نہیں دے سکتی سوائے ابدیت کے !

 ہم چاہتے ہیں کہ ہم خوش رہیں مگر کسی خوشی ، ابدی خوشی ہی ہمیں خوش رکھ سکتی ہے اور وہ بھی ہمیشہ کیلئے ! یہ کوئی ایسی ہی خوشی چاہتا ہے ۔ کیا ہم نہیں چاہتے کہ لوگ ہم سے پیار کریں ۔ جی ہاں ہم چاہتے ہیں ۔  مگر کیا یہ پیار ایک سال ، 10 سال یا 5 سال کیلئے ہو نہیں ہم چاہتے ہیں کہ یہ پیار ابدی                  ہو ۔ یادرکھیں ہر کوئی ہی ابدی پیار کو ہی  چاہتا ہے ۔

 کس قسم کی خواہشات ہمارے اندر آتی ہیں ۔ کیا یہ جسم سے آتی ہیں ۔ ابدی خواہشات آسانی سے پوری ہوتیں ہیں ۔ مثلاََ روٹی ، کپڑا اور مکان یہ ذرا سی محنت سے انسان حاصل کر سکتا ہے اور کر بھی لیتا ہے ۔

 مگر یہ واضح ہے کہ ابدیت جو ہمارے اندر ہے یہی اصل میں ہماری ضرورت ہے ۔ اس طرح ابدی پیار ، ابدی خوشی ہر کوئی چاہتا ہے ۔ اور یہی سب کچھ اصل میں انسانی ضرورت ہے جو اسے ہمیں چاہیے!                                                 پس جانیں یہی کمی ہر کوئی انسان محسوس کر تا رہتا ہے ۔

فرض کریں ایک جوڑا آپس میں بڑا پیار کر تے ہیں ۔ مگر اچانک ایک دوسرے سے اپنا تعلق توڑ لیتا ہے ۔ اور دوسرا اسی تعلق سے بڑی ایمانداری سے رہنا چاہتا مگر لاکھ کوشش کے باوجود بے وفا ہونے والا اپنا روّیہ میں بدلتا تو پیار کرنے والا کیا چاہئے گا ؟۔ وہ چاہئے گا اور کہے گا کہ اگر یہ تیرا پیار میرے لئے نہیں ہے تو میں تجھے یہ پیار کسی اور سے بھی کرنے نہیں دوںگا یا کرنے نہیں دوں گی ۔ یہی اس کا جواب ہوگا جو ابدی پیا رکا چاہنے اور کرنے والا ہوگا یا ہوگی ۔

پس لو گ کیوں ابدیت کو چاہ دیتے ہوتے ہیں ۔ اصل میں یہ ابدی خواہش ہمارے جسم کے اندر نہیں  ہوتی ہے بلکہ دل میں خدا نے دیکھی ہو ئی ہے ۔ یہ ابدیت کی خواہش کہاں سے آتی ہے ؟ یادرکھیں خدا نے ہمارے دل میں اس کو پیدا کیا ہوا ہے ۔ چونکہ ہم اسی کی بنا ء پر ابدی طور پر بنائے گئے ہیں ۔ اسی لئے جب ہم عارضی پیار اور اشیا کو دیکھتے ہیں تو چلاّ اُٹھتے ہیں کہ مجھے ابدی پیار چاہئے ۔

ہم چرچ میں یسوع  مسیح کے ذریعے خدا کو جان سکتے ہیں ۔ چونکہ ہم ابدیت چاہ رہے ہو تے ہیں ۔ لیکن اگر ہم عارضی پنا ہ میں خوشی پاتے ہیں تو یہ آسانی سے چرچ کے باہر پائی جا سکتے ہے ۔ یاد رکھیں ابد ی اشیا صرف مسیح میں ہم خدا باپ سے حاصل کرسکتے ہیں اور کسی سے نہیں !

یسوع پر ایمان لانے کے بعد بھی کئی مسیحی عارضی چیزیں مانگ رہے ہو تے ہیں ۔ آپ نے کئی  خدام کو دیکھا ہو گا تو یسوع کے نام میں کئی اشیا کی امید یں لوگوں کو دلا رہے ہوتے ہیں ایمان لا  ئیں یسوع پر آپ کو فلاں فلاں چیز مل جا ئے گی وغیر ہ وغیرہ ۔

 سوچیں یہ سب کچھ مل بھی جاتا ہے مگر کیا یہ ابدی ہیں ہر گز نہیں ان کو پانے کے بعد خواہشات بڑھ جا تیں  ہیں ۔ سوچیں پھر کیا بنے گا ۔ اس لئے وہ چاہتا کہ مسیحی ایماندار ابدی چیزوں کو پائیں نہ کہ عارضی چیزوں کی تلاش میں رہیں ۔

 دنیا کبھی بھی ہمیں ابدی اشیا نہ دکھا اور نہ ہی دے سکتی ہے ۔

 ہاں خدا ہی نہیں ابدی اشیا ، امید ، اور ابدی خوشی دے سکتا ہے ۔  تاریخ اس بات کی شاید ہے کہ سچے مسیحی ؛ایماندار مسیحی نئے سرے سے پیدا شدہ مسیحی ہمیشہ زمین پر ہی ابدی اشیا کے وراث بن جاتے ہیں ۔ اور سارے وعدہ اور عہود حاصل کر لیتے ہیں جن کو دینے کا وعدہ ان کا آسمانی باپ ان کے ساتھ کر تا ہے ۔وہ ان تمام ابدی اشیا کا حقیقی تجربہ بھی ہمیں فراہم کرتا ہے ۔ ضرور ہے کہ ہم ان ابدی اشیا کا تجربہ اپنے آسمانی باپ سے حاصل  کریں ۔

یاد رکھیں وہ اپنے روحانی بچوں کو یہ تجربات عنایت کرتا رہتا ہے ۔

 اس لئے جو حقیقی چرچ میں آجاتے ہیں دنیا اور دنیوی خواہشات سے بھاگتے ہیں اور ابدی اشیا کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ یقینا حقیقی چرچ ہی حقیقی خوشی ، ابدی اطمینان اور ابدی خوشی عطا کر سکتا ہے ۔ یاد رکھیں زندگی کا مقصد ان اشیا کا حصّول ہی کے بعد کچھ نہ ہے ۔ ابدی خوشی ، ابدی اطمینا ن ہی مسیحی ایمانداروں کا خاصہ ہیں ۔

میری دلی دعا ہے کہ آپ یہ سب  کچھ حاصل کریں ۔ یسوع کے نا م میں آپ کو یہ برکت دیتا ہوں ۔

 خداوند ہمارے باپ ہم  تمام اراوح کیلئے دعا گو ہیں انہیں اپنے فضل سے یہ تمام الہٰی برکات اور ابدی اشیا عطا فرما ۔ ابدی خوشی دے ۔ جس طرح سے تو ابدی ہے ان کو بھی یہ برکت دے ۔ تا کہ یہ بھی ابدیت میں شامل ہوں اور یہ ہیں ۔ ان پر اس حقیقت کو آشکارا فرما ۔

پادری اَک ٹک لیِ

مشن سنٹر سنِ گر یگ چرچ